164 – (101) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب وهو ابن عبد الرحمن القاري ح، وحدثنا أبو الأحوص محمد بن حيان، حدثنا ابن أبي حازم، كلاهما عن سهيل بن أبي صالح، عن أبيه، عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا». [صحيح مسلم (1/ 99)]
https://en.wikipedia.org/wiki/State-owned_enterprises_of_South_Africa
ہند و سرکار کی بجلی چوری کرنا؟
سوال (۵۲): یا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ : ہند وسرکار کی ہندی مسلمان کے لئے بجلی چوری کرنا جائز ہے؟
باسمہ سبحانہ تعالی
الجواب و باللہ التوفیق: جائز نہیں ہے۔
عن أبي هريرة I قال: قال رسول الله H: «لعن الله السارق يسرق البيضة فتقطع يده ويسرق الحبل فتقطع يده». (صحيح مسلم)
فقط والله تعالى أعلم
کتبہ احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ ۱۸/۱/۱۴۱۶
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
بِل زیادہ آنے کی وجہ سے بجلی چرانا؟
سوال (۵۴) – کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ : مجبوری میں بجلی چرانا کیسا ہے؟ مثلا گھر میں نہ ٹی وی ہے نہ ٹیپ، صرف دو تین ٹیوب لائٹ ہے، اور مہینہ میں بارہ پندرہ سو روپئے بل آرہا ہے، تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
باسمہ سبحانہ تعالی
الجواب و باللہ التوفیق: بجلی چرانا منع ہے، میٹر اگر تیز چل رہا ہو، تو محکمہ بجلی سے شکایت کرکے جلد از جلد درست کرالے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۷/۱۸۷) فقط واللہ تعالی اعلم
کتبہ احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ ۱۶/۲/۱۴۲۵
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
[کتاب النوازل: ۱۲/۶۱۶]
آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط. [الفتاوى الهندية (5/ 343)]
وفي البزازية غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام؛ لأن أموال الناس لا يخلو عن حرام فيعتبر الغالب وإن غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال إنه حلال أورثته واستقرضته ولهذا قال أصحابنا لو أخذ مورثه رشوة أو ظلما إن علم وارثه ذلك بعينه لا يحل له أخذه وإن لم يعلمه بعينه له أخذه حكما لا ديانة فيتصدق به بنية الخصماء. [مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 529)]
حرام و حلال مخلوط مال سے دعوت قبول کرنا
سوال [۸۶۵۵]: اگر کسی آدمی کے پاس دو حصہ مال حلال ہے اور ایک حصہ مال حرام ہے تو ایسی آدمی کی دعوت قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامدا و مصلیا:
دعوت قبول کرنے میں گنجائش ہے، تنبیہاً یا احتیاطًا انکار کی بھی گنجائش ہے۔
حررہ العبد محمود گنگوہی عفا اللہ عنہ، معین مفتی مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور، ۶/۳/۵۶۔
الجواب صحیح: سعید احمد غفر لہ۔
الجواب صحیح: عبد اللطیف، ۸/ ربیع الاول/۵۶۔
[فتاوی محمودیہ: ۱۸/۱۳۲]